دنیا کے لئے تحفۂ نایاب ہے عورت
افسانۂ ہستی کا حسیں باب ہے عورت
دیکھا تھا جو آدم نے وہی خواب ہے عورت
بے مثل ہے آئینہ آداب ہے عورت
ہے ماں تو دل و جاں سے لٹاتی ہے سدا پیار
ممتا کے لئے پھرتی ہے دولت سر بازار
آسان بناتی ہے دعا سے رہ دشوار
اپنے غم و آلام کا کرتی نہیں اظہار
قدموں میں لئے رہتی ہے جنت کا خزانہ
عورت کے تصور میں ہے تعمیر زمانہ
بیوی ہے تو غم خوار ہے پیکر ہے وفا کا
آنچل کو بنا لیتی ہے فانوس حیا کا
رخ دیکھ کے رکھتی ہے قدم اپنا ہوا کا
گرویدہ بناتی ہے تبسم کی ادا کا
خواب نگہ عشق کی تعبیر ہے عورت
مردوں کے لئے حسن کی زنجیر ہے عورت
ہے شکل میں بیٹی کی بہار سحر و شام
قدرت کا عطیہ ہے یہ قدرت کا ہے انعام
دیتی ہے مسرت کا دل زار کو پیغام
ہے روح کو تسکین جگر کا ہے یہ آرام
صورت میں بہن کی ہے چمن کا یہ حسیں پھول
ایثار و محبت ہے شب و روز کا معمول
بے کار کی رنجش کو کبھی دیتی نہیں طول
احساس مروت میں رہا کرتی ہے مشغول
لکھی ہے ہر اک رنگ میں عورت کی کہانی
کہتے ہیں اسے عظمت انساں کی نشانی
ڈھل جانا ہر اک روپ میں آسان ہے اس کو
بدلے ہوئے حالات کی پہچان ہے اس کو
واقف ہے بہر طور یہ جینے کے ہنر سے
بے خوف گزر جاتی ہے ہر راہ گزر سے
اک پل میں یہ شعلہ ہے تو اک پل میں ہے شبنم
یعنی ہے کبھی گل تو کبھی خار مجسم
ہو صبر پہ آمادہ تو سہہ جائے ہر اک غم
ہو جائے مخالف تو پلٹ دے صف عالم
پابند وفا ہو تو دل و جان لٹا دے
آ جائے بغاوت پہ تو دنیا کو ہلا دے
رہبر جونپوری