میں نے ہر بار تجھ سے ملتے وقت تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے تیرے جانے کے بعد بھی میں نے تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے
یہ تیرے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب و خیال، متاع جاں ہیں ترے قول اور قسم کی طرح گذشتہ سال انہیں میں نے گن کے رکھا تھا، کسی غریب کی جوڑی ہوئی رقم کی طرح ۔جون ایلیا۔
وہ کسی دن نہ آ سکے پر اسے پاس وعدے کو ہو نبھانے کا ہو بسر انتظار میں ہر دن دوسرا دن ہو اس کے آنے کا
ہے محبت حیات کی لذت ورنہ کچھ لذت حیات نہیں کیا اجازت ہے ایک بات کہوں وہ مگر خیر کوئی بات نہیں
شرم دہشت جھجھک پریشانی ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں
پاس رہ کر جدائی کی تجھ سے دور ہو کر تجھے تلاش کیا میں نے تیرا نشان گم کر کے اپنے اندر تجھے تلاش کیا